از: محمداسماعیل صادق
جامعہ
فلاح دارین الاسلامیہ بلاسپور، مظفرنگر
بندہ
اس عنوان کے تحت مدارسِ اسلامیہ کے اہل انتظام کو ایک اہم امر کی
جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے، احقر بھی چونکہ ایک ادارہ کا انتظامی
خادم ہے، اس لیے دیگر چیزوں کے ساتھ طلبہ واساتذہ کی چھٹیوں
سے پورے تعلیمی سال سابقہ پڑتا ہے۔
متقدمین
کے عہد پر اگر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سی خوبیوں
کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی نظر آتی ہے، کہ جو
طالب علم جس استاذ کی خدمت میں آکر علم حاصل کرنے لگا، برسہا
برس گذرگئے لیکن اس نے اپنے وطن کا رُخ نہیں کیا، ہرفن میں
اس نے پورا پورا عبور اور کمال حاصل کیا، اگر یہاں اس کی علمی
تشنگی نہ بجھ سکی تو دوسرے شہر یا دوسرے ملک کے لیے رخت
سفر باندھا اور ہاں جو باکمال استاذ ملا، اس سے اکتسابِ فیض شروع کردیا
اورکم عمری میں ہی تجوید وقرأت، تفسیر وحدیث،
نحو وصرف، ادب وفقہ، منطق وفلسفہ، وغیرہ میں دسترس حاصل کرلی؛
حالانکہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ جس میں آج کل کی طرح
دارُالاقامہ کا نظم، مطبخ کی سہولت، روشنی، پانی اور پنکھے وغیرہ
کا باقاعدہ بندوبست نہیں تھا، اپنے ہی پاس سے کھانے کا انتظام کرنا،
اور اپنے طور سے ہی رہائش کی جگہ تلاش کرنا، اساتذہ صرف پڑھاتے تھے،
اور اس پڑھانے کو ہی شاگرد اپنے اوپر اساتذہ کا بڑا احسان سمجھتے تھے، صاحبِ
ہدایت النحو شیخ سراج الدین اودھیؒ کا مشہور واقعہ
ہے کہ جب ان کے مرشد خواجہ نظام الدین اولیائؒ نے ان کو بنگال
بھیجنا چاہا تو ان کے عالم نہ ہونے کی وجہ سے تذبذب ہوا، خواجہ صاحبؒ
کا تذبذب دیکھ کر ایک مرید مولانا فخرالدین زرّاوی
نے عرض کیا۔ ’’درشش ماہ اور! دانشمند می کنم‘‘ (میں چھ مہینے
میںان کو عالم بنادوںگا)۔
چنانچہ چھ ماہ کی قلیل مدت
میں ان کو بنیادی علوم صرف، نحو، منطق، فقہ وغیرہ سے ایساروشناس
کرادیا کہ منتہی کتابیں حل کرنا، ان کے لیے آسان
ہوگیا،اور اپنے زمانہ کے اتنے بڑے عالم بنے کہ ’’ہدایت النحو‘‘ جیسی
بنیادی کتاب تصنیف کی؛ لیکن ان چھ مہینوں میں
نہ وہ کسی شادی میں شریک ہوئے، نہ کسی عزیز
کے انتقال میں چھٹی لی، نہ عقیقہ، ولیمہ کی
تقریبات کو زینت بخشی، بس رات دن استاذ اور شاگرد دونوں کو
پڑھنے پڑھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہ تھا، ہمارے اس عہد میں مدارسِ
اسلامیہ میں ساری سہولتیں ہونے کے باوجود صلاحیتیں
کمزور رہ جانے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب لمبی لمبی چھٹیاں
بھی ہیں۔ احقر نے جب چھٹیوں پر نظر ڈالی تو بمشکل ۷ مہینے تعلیم
ہوتی ہے اور باقی مہینے چھٹی کی نذر ہوجاتے ہیں؛
بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اگر میں یہ عرض کروں کہ
چھ مہینے ہی تعلیم میں گذرتے ہیں تو بے جانہ ہوگا؛
اس لیے کہ ماہِ شعبان شروع ہونے سے قبل ہی اکثر مدارس میں اسباق
بند ہوجاتے ہیں، شعبان کا اوّل نصف حصہ امتحان اور اس کی تیاری
میں گذرجاتا ہے اور باقی نصف چھٹی میں، پورا رمضان اور
نصف شوال چھٹی میں، باقی نصف شوال داخلوں اور تعلیمی
ترتیب میں،اس طرح یہ تین ماہ ختم ہوئے۔ ذیقعدہ
میں پورے مہینے تعلیم جاری رہتی ہے۔ ۲،۳؍ذی
الحجہ سے طلبہ اپنے گھروں کو جانا شروع ہوجاتے ہیں اور ۱۷،۱۸؍ذی
الجہ تک واپس ہوتے ہیں۔ ۱۵؍دن
یہاں ختم ہوئے، پھر تعلیم شروع ہوتی ہے اور ربیع الاوّل
کے ختم تک پورے شباب سے جاری رہتی ہے، اس کے بعد ششماہی امتحان
کی تیاری کے لیے اسباق بند، اس کے بعدامتحانات پھر چند
روز کی چھٹی، تقریباً اس میں بھی پندرہ سے بیس
روز صرف ہوجاتے ہیں، باقی رہے آٹھ مہینے ان میں
ہرمہینے ۴؍جمعے،آٹھ ماہ
میں ۳۲؍ ایام ختم، باقی
سات مہینوں میں کبھی طالب علم اپنے گھر جارہے ہیں تو کبھی
استاذ کو کوئی عارض پیش آرہا ہے، اور بھی کچھ نہیں
تو کم از کم شادی، بیاہ، منگنی کی رسم، عقیقہ، ولیمہ
اور دیگر تقریبات؛ بلکہ ہمارے علاقہ میں ایک نیا
سلسلہ یہ بھی شروع ہوگیا کہ حجاج حج کو جاتے ہیں تو
باقاعدہ پروگرام طے کرکے عزیزداروں اور دوستوں کو مدعو کرتے ہیں اور
مدرسہ میں داخل شدہ بچے کو ضرور شریک کرتے ہیں، پھر حج سے واپسی
پر بھی اس کو چھٹی دلواتے ہیں، اس کے علاوہ مدرسوں میں جو
اجلاس اور دیگر پروگرام ہوتے ہیں اور اس میں طلبہ کا جو حرج ہے
وہ بھی اہل انتظام سے مخفی نہیں، فقیر نے یہ احوال
تو اپنے علاقہ (مغربی یوپی) کے اعتبار سے پیش کیے ہیں،
مشرقی یوپی کا حال تو اس سے بھی گیا گذرا ہے، گذشتہ
سال مشرقی یوپی کے چند مدارس میں حاضری کا موقع
ملا، وہاں دیکھا کہ جمعرات کی دوپہر سے ہی چھٹی ہوجاتی
ہے، یہ دیکھ کر میں نے اپنے میزبان سے جو خود بھی ایک
مدرسہ سے وابستہ تھے، معلوم کیا تو انھوں نے بتلایا کہ ہمارے علاقہ میں
اکثر مدارس میںیہی رواج ہے اس تناسب سے وہاں تعلیمی
ایام اور گھٹ جاتے ہیں؛ بہرحال اگر اساتذہ وطلبہ چھٹی پر قابو
کرلیں اور پورا شوال جو داخلوں کی کارروائی میں گذرجاتا
ہے، اس میں ۶،۷؍شوال سے داخلہ شروع
کرکے ۱۱،۱۲؍تک پورے کرلیں
اور پھر تعلیمی سلسلہ شروع فرمادیں، اسی طرح دیگر
تعطیلات میں سے بھی چند چندایام بچالیں، نیز
طلبہ کو سال کے دوران کم چھٹی دیں اور خود بھی کم چھٹیاں
کرلیں، تو یقینا یہ طریقہ موثر اور بڑا نفع بخش
ہوگا؛ جہاں تک دارُالعلوم،مظاہر علوم وغیرہ مرکزی اداروں کا معاملہ ہے
ان میں داخلہ امتحانات، نتائج اور ترتیب ودیگر کارروائی میں
پورا مہینہ گذرجانا، ایک یقینی امر ہے، لیکن
جہاں چھوٹا نظام ہے، وہ بآسانی یہ کام کرسکتے ہیں۔
چند
گذارشات جو اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالیں عرض کردیں،
میرا رب مجھے بھی اور سبھی مدارس کے اربابِ حل وعقد کو عمل کی
توفیق نصیب فرمائے! آمین۔
٭ ٭ ٭
-------------------------------------------------
دارالعلوم ، شماره 5، جلد: 95 جمادی الثانیہ 1432 ہجری مطابق
مئی 2011 ء